چرواہا بھی نابینا ہے اور ساری بھیڑیں کالی ہیں
محافظ سکوارڈ کے اہل کار نے رکنے کا اشارہ کیاتو غلام محمد نے اپنی موٹر سائیکل سڑک کے ایک طرف روک دی۔سکوارڈ اہل کار نے اپنی موٹر سائیکل سے اترتے ہی غلیظ گالیاں دیتے ہوئے اس پر تھپڑ اورُ مکوں کی بارش کردی۔ مبینہ طور پر موقع پر موجود لوگوں نے جھگڑا ختم کرانے کی بہت کوشش کی مگر سکوارڈ اہلکار شاید اپنے ہوش و حواس میں نہ تھا۔اس کے منہ سے شراب کیُ بو واضح طور پر محسوس کی جا سکتی تھی ۔اس نے اپنی بیلٹ اتاری اور غلام محمد کو اس حد تک پیٹا کہ اس کے دانت ٹوٹ گئے اور وہ لہو لہان ہو گیا،لوگوں نے اس لڑائی مارکٹائی کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو صاحب بہادر نے فرمایاکہ اس نے مجھے روڈ پر راستہ کیوں نہیں دیا؟غلام محمد نے بتایا کہ اسے تو معلوم ہی نہیں ہے کہ سڑک پر کب اس نے راستہ مانگا تھا۔ فیضان نامی سکوارڈ اہل کار غصے سے بے قابو ہو چکا تھا ،اتنے ہنگامے پر شاید اس کے دل کی تسلی نہیں ہوئی تو وہ غلام محمد کوکو تھانے لے گیا اور گھنٹوں تک حبس بے جا میں رکھا۔غلام محمد ایک تاجر ہے اور بہاولپور میں الکریم پلازہ میں اس کی دوکان ہے ،وہ سیدھا سادہ ،اپنے کام سے کام رکھنے والا انسان ہے ۔اس کے وہم و گمان بھی نہ ہوگا کہ آج اسے بغیر کسی وجہ کے سر راہ بے عزت اور ذلیل کیا جائے گا۔وہ اس دن اپنی دوکان بند کرکے گھر جا رہا تھا جب یہ واقعہ پیش آیا،بعد میں انجمن تاجران الکریم پلازہ کے احتجاج پر غلام محمد کو آزادی نصیب ہوئی۔
میں بہت دیر تک اس واقعہ سے متاثر ہونے والے نوجوان غلام محمد کے بارے میں غور و فکر میں ڈوبا رہا ۔میں یہ سوچ رہا تھا کہ عوام کے محافظ، محافظ سکوارڈ کے اہل کار کے بارے میں اس نوجوان کی کیا رائے قائم ہوئی ہو گی ؟کیا مستقبل وہ کسی قوم کے محافظ کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے گا؟ میں بہت دیر سوچ و بچار کے باوجود اس گُتھی کو نہ سلجھا پایااور شاید حکومت وقت بھی اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں بے بس ہے یا پھر وہ کبوتر بن گئی ہے جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے ۔میرے ذہن کی تختی پر فرہاد جبریل کے یہ شعر ابھرے ہیں جنہیں قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا ۔
میں بہت دیر تک اس واقعہ سے متاثر ہونے والے نوجوان غلام محمد کے بارے میں غور و فکر میں ڈوبا رہا ۔میں یہ سوچ رہا تھا کہ عوام کے محافظ، محافظ سکوارڈ کے اہل کار کے بارے میں اس نوجوان کی کیا رائے قائم ہوئی ہو گی ؟کیا مستقبل وہ کسی قوم کے محافظ کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے گا؟ میں بہت دیر سوچ و بچار کے باوجود اس گُتھی کو نہ سلجھا پایااور شاید حکومت وقت بھی اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں بے بس ہے یا پھر وہ کبوتر بن گئی ہے جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے ۔میرے ذہن کی تختی پر فرہاد جبریل کے یہ شعر ابھرے ہیں جنہیں قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا ۔
منزل ہے نہ کوئی رستہ ہے ریوڑ ہے کہ چلتا جاتا ہے
چرواہا بھی نابینا ہے اور ساری بھیڑیں کالی ہیں
لبریز نظر تو آتے ہیں اندر سے مگر یہ خالی ہیں
سب جھوٹے روپ کے درشن ہیں یہ جتنے لوگ مثالی ہیں
امیدوں کے چھن جانے پر فرہاد ہمیں یوں لگتا ہے
جیسے کہ پرائے لوگوں کی اولادیں لے کر پالی ہیں
چرواہا بھی نابینا ہے اور ساری بھیڑیں کالی ہیں
لبریز نظر تو آتے ہیں اندر سے مگر یہ خالی ہیں
سب جھوٹے روپ کے درشن ہیں یہ جتنے لوگ مثالی ہیں
امیدوں کے چھن جانے پر فرہاد ہمیں یوں لگتا ہے
جیسے کہ پرائے لوگوں کی اولادیں لے کر پالی ہیں
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ عوام کو تحفظ فراہم کرنے والے ادارے ایسا کیوں کر رہے ہیں ؟کیا حکومت کی جانب سے ان
کے اختیارات میں اتنا زیادہ اضافہ کر دیا گیا ہے کہ وہ جب چاہیں، جسے چاہیں بے عزت کریں یا ان کی جان لے لیں ۔ ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔مقامی انتظامیہ بھی ایسے معاملات میں چپ کا روزہ رکھ لیتی ہے اور اگر زیادہ پریشر ڈالا جائے تو ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی جاتی ہے ۔انکوائری کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد راقم الحروف نے بہت کم کیسز میں غلطی کے مرتکب افراد کو سزا ہوتے دیکھی ہے اور تو اور وہ قوم کے محافظ(پولیس اہل کار) جو جعلی مقابلوں کے حوالے سے مشہور ر ہے ہیں وہ بھی نوکری سے با عزت ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں اور بعد میں چٹی دلالی سے اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں ۔
کیا کراچی میں رینجرز کے ہا تھوں قتل ہونے والے نوجوان سرفراز شاہ کاقتل ایک انفرادی واقعہ تھا ؟اس واقعہ کا انفرادی پہلو یہ ہے کہ اس قتل کے وقت وہاں سات رینجرز اہل کار موجود تھے۔ان کے افسر نے ایک اہل کار کو حکم دیا کہ سرفراز کو گولی مار دو،اس اہل کار نے انکار کر دیا جس پر افسر نے اسے تھپڑ مارے ۔اس انکار کرنے والے اہل کار کے ساتھ افسر نے کیا سلوک کیا؟ مجھے نہیں معلوم مگر اس نے اپنے افسر حقیقی (اللہ) کے سامنے کامیابی حاصل کر لی ہے ۔سرکاری اداروں میں تعینات عوام کے تحفظ اور امن و امان کے ذمہ دار اہل کاروں کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ انہیں سرکار تنخواہ عوام کی خدمت کے عوض دے رہی ہے نہ کہ عوام پر تشدد اور قیامت برپا کرنے کی ۔ میری نظر میں جرائم میں اضافے کی ایک بڑی وجہ سکیورٹی فراہم کرنے والے اداروں میں موجود کالی بھیڑیں ہیں ۔حیرانی ہوتی ہے کہ یہ کیسی مملکت خدا داد ہے ۔یہاں سنگین ترین انسانیت سوز جرم جائز ہے ،جواں مرد سورما نہتی،غریب الوطن،بے بس اور کمزور عورتوں کے جسم ان گنت گولیوں سے چھلنی کردیں تو اسے کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔حکومت وقت عوام کی برداشت کو نہ آزمائے ،عوام پہلے ہی بے روزگاری، مہنگائی،غربت،لوڈ شیڈنگ،دہشت گردی اور ان گنت مسائل کے انبار تلے دبے ہوئے ہیں ۔اب امن و امان اور تحفظ فراہم کرنے والے قوم کے محافظ ہی ان کے دشمن بن جائیں تو غریب عوام کہاں جائیں۔
کیا کراچی میں رینجرز کے ہا تھوں قتل ہونے والے نوجوان سرفراز شاہ کاقتل ایک انفرادی واقعہ تھا ؟اس واقعہ کا انفرادی پہلو یہ ہے کہ اس قتل کے وقت وہاں سات رینجرز اہل کار موجود تھے۔ان کے افسر نے ایک اہل کار کو حکم دیا کہ سرفراز کو گولی مار دو،اس اہل کار نے انکار کر دیا جس پر افسر نے اسے تھپڑ مارے ۔اس انکار کرنے والے اہل کار کے ساتھ افسر نے کیا سلوک کیا؟ مجھے نہیں معلوم مگر اس نے اپنے افسر حقیقی (اللہ) کے سامنے کامیابی حاصل کر لی ہے ۔سرکاری اداروں میں تعینات عوام کے تحفظ اور امن و امان کے ذمہ دار اہل کاروں کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ انہیں سرکار تنخواہ عوام کی خدمت کے عوض دے رہی ہے نہ کہ عوام پر تشدد اور قیامت برپا کرنے کی ۔ میری نظر میں جرائم میں اضافے کی ایک بڑی وجہ سکیورٹی فراہم کرنے والے اداروں میں موجود کالی بھیڑیں ہیں ۔حیرانی ہوتی ہے کہ یہ کیسی مملکت خدا داد ہے ۔یہاں سنگین ترین انسانیت سوز جرم جائز ہے ،جواں مرد سورما نہتی،غریب الوطن،بے بس اور کمزور عورتوں کے جسم ان گنت گولیوں سے چھلنی کردیں تو اسے کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔حکومت وقت عوام کی برداشت کو نہ آزمائے ،عوام پہلے ہی بے روزگاری، مہنگائی،غربت،لوڈ شیڈنگ،دہشت گردی اور ان گنت مسائل کے انبار تلے دبے ہوئے ہیں ۔اب امن و امان اور تحفظ فراہم کرنے والے قوم کے محافظ ہی ان کے دشمن بن جائیں تو غریب عوام کہاں جائیں۔
مفلس شہر کو دھنوان سے ڈر لگتا ہے
پر نہ دھنوان کو رحمن سے ڈر لگتا ہے
اب کہاں ایثارو اخوت ہو مدینے جیسی
اب تو مسلم کو مسلمان سے ڈر لگتا ہے