Thursday 21 July 2011

چرواہا بھی نابینا ہے اور ساری بھیڑیں کالی ہیں

چرواہا بھی نابینا ہے اور ساری بھیڑیں کالی ہیں
محافظ سکوارڈ کے اہل کار نے رکنے کا اشارہ کیاتو غلام محمد نے اپنی موٹر سائیکل سڑک کے ایک طرف روک دی۔سکوارڈ اہل کار نے اپنی موٹر سائیکل سے اترتے ہی غلیظ گالیاں دیتے ہوئے اس پر تھپڑ اورُ مکوں کی بارش کردی۔ مبینہ طور پر موقع پر موجود لوگوں نے جھگڑا ختم کرانے کی بہت کوشش کی مگر سکوارڈ اہلکار شاید اپنے ہوش و حواس میں نہ تھا۔اس کے منہ سے شراب کیُ بو واضح طور پر محسوس کی جا سکتی تھی ۔اس نے اپنی بیلٹ اتاری اور غلام محمد کو اس حد تک پیٹا کہ اس کے دانت ٹوٹ گئے اور وہ لہو لہان ہو گیا،لوگوں نے اس لڑائی مارکٹائی کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو صاحب بہادر نے فرمایاکہ اس نے مجھے روڈ پر راستہ کیوں نہیں دیا؟غلام محمد نے بتایا کہ اسے تو معلوم ہی نہیں ہے کہ سڑک پر کب اس نے راستہ مانگا تھا۔ فیضان نامی سکوارڈ اہل کار غصے سے بے قابو ہو چکا تھا ،اتنے ہنگامے پر شاید اس کے دل کی تسلی نہیں ہوئی تو وہ غلام محمد کوکو تھانے لے گیا اور گھنٹوں تک حبس بے جا میں رکھا۔غلام محمد ایک تاجر ہے اور بہاولپور میں الکریم پلازہ میں اس کی دوکان ہے ،وہ سیدھا سادہ ،اپنے کام سے کام رکھنے والا انسان ہے ۔اس کے وہم و گمان بھی نہ ہوگا کہ آج اسے بغیر کسی وجہ کے سر راہ بے عزت اور ذلیل کیا جائے گا۔وہ اس دن اپنی دوکان بند کرکے گھر جا رہا تھا جب یہ واقعہ پیش آیا،بعد میں انجمن تاجران الکریم پلازہ کے احتجاج پر غلام محمد کو آزادی نصیب ہوئی۔
میں بہت دیر تک اس واقعہ سے متاثر ہونے والے نوجوان غلام محمد کے بارے میں غور و فکر میں ڈوبا رہا ۔میں یہ سوچ رہا تھا کہ عوام کے محافظ، محافظ سکوارڈ کے اہل کار کے بارے میں اس نوجوان کی کیا رائے قائم ہوئی ہو گی ؟کیا مستقبل وہ کسی قوم کے محافظ کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے گا؟ میں بہت دیر سوچ و بچار کے باوجود اس گُتھی کو نہ سلجھا پایااور شاید حکومت وقت بھی اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں بے بس ہے یا پھر وہ کبوتر بن گئی ہے جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے ۔میرے ذہن کی تختی پر فرہاد جبریل کے یہ شعر ابھرے ہیں جنہیں قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا ۔
منزل ہے نہ کوئی رستہ ہے ریوڑ ہے کہ چلتا جاتا ہے
چرواہا بھی نابینا ہے اور ساری بھیڑیں کالی ہیں

لبریز نظر تو آتے ہیں اندر سے مگر یہ خالی ہیں
سب جھوٹے روپ کے درشن ہیں یہ جتنے لوگ مثالی ہیں

امیدوں کے چھن جانے پر فرہاد ہمیں یوں لگتا ہے
جیسے کہ پرائے لوگوں کی اولادیں لے کر پالی ہیں

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ عوام کو تحفظ فراہم کرنے والے ادارے ایسا کیوں کر رہے ہیں ؟کیا حکومت کی جانب سے ان
 کے اختیارات میں اتنا زیادہ اضافہ کر دیا گیا ہے کہ وہ جب چاہیں، جسے چاہیں بے عزت کریں یا ان کی جان لے لیں ۔ ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔مقامی انتظامیہ بھی ایسے معاملات میں چپ کا روزہ رکھ لیتی ہے اور اگر زیادہ پریشر ڈالا جائے تو ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی جاتی ہے ۔انکوائری کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد راقم الحروف نے بہت کم کیسز میں غلطی کے مرتکب افراد کو سزا ہوتے دیکھی ہے اور تو اور وہ قوم کے محافظ(پولیس اہل کار) جو جعلی مقابلوں کے حوالے سے مشہور ر ہے ہیں وہ بھی نوکری سے با عزت ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں اور بعد میں چٹی دلالی سے اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں ۔
کیا کراچی میں رینجرز کے ہا تھوں قتل ہونے والے نوجوان سرفراز شاہ کاقتل ایک انفرادی واقعہ تھا ؟اس واقعہ کا انفرادی پہلو یہ ہے کہ اس قتل کے وقت وہاں سات رینجرز اہل کار موجود تھے۔ان کے افسر نے ایک اہل کار کو حکم دیا کہ سرفراز کو گولی مار دو،اس اہل کار نے انکار کر دیا جس پر افسر نے اسے تھپڑ مارے ۔اس انکار کرنے والے اہل کار کے ساتھ افسر نے کیا سلوک کیا؟ مجھے نہیں معلوم مگر اس نے اپنے افسر حقیقی (اللہ) کے سامنے کامیابی حاصل کر لی ہے ۔سرکاری اداروں میں تعینات عوام کے تحفظ اور امن و امان کے ذمہ دار اہل کاروں کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ انہیں سرکار تنخواہ عوام کی خدمت کے عوض دے رہی ہے نہ کہ عوام پر تشدد اور قیامت برپا کرنے کی ۔ میری نظر میں جرائم میں اضافے کی ایک بڑی وجہ سکیورٹی فراہم کرنے والے اداروں میں موجود کالی بھیڑیں ہیں ۔حیرانی ہوتی ہے کہ یہ کیسی مملکت خدا داد ہے ۔یہاں سنگین ترین انسانیت سوز جرم جائز ہے ،جواں مرد سورما نہتی،غریب الوطن،بے بس اور کمزور عورتوں کے جسم ان گنت گولیوں سے چھلنی کردیں تو اسے کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔حکومت وقت عوام کی برداشت کو نہ آزمائے ،عوام پہلے ہی بے روزگاری، مہنگائی،غربت،لوڈ شیڈنگ،دہشت گردی اور ان گنت مسائل کے انبار تلے دبے ہوئے ہیں ۔اب امن و امان اور تحفظ فراہم کرنے والے قوم کے محافظ ہی ان کے دشمن بن جائیں تو غریب عوام کہاں جائیں۔

مفلس شہر کو دھنوان سے ڈر لگتا ہے
پر نہ دھنوان کو رحمن سے ڈر لگتا ہے
اب کہاں ایثارو اخوت ہو مدینے جیسی
اب تو مسلم کو مسلمان سے ڈر لگتا ہے

قابل قدر افراد

قابل قدر افراد
ہر تنخواہ دار ملازم کو اس دن کا بڑی شدت سے انتظار ہوتا ہے جب یہ نوید دی جاتی ہے کہ اس کی تنخواہ بینک اکاؤنٹ میں منتقل کر دی گئی ہے۔اس سلسلے میں کلرک صاحبان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ تنخواہ وقت پر بینک میں نہ پہنچ پائے۔اگر کسی ماہ وقت پر تنخواہ مل جائے تو یقین ہی نہیں آتا کہ یہ خواب ہے یا حقیقت۔ اس دن دس تاریخ تھی اور تنخواہ ملنے کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نہ تھا۔ہم اسی ادھیڑ بن میں مصروف تھے جب چپراسی نے انتہائی راز داری سے یہ اطلاع دی کہ تنخواہ بینک میں منتقل ہو چکی ہے۔ہم نے ممنون نظروں سے اس کی طرف دیکھا حالانکہ تنخواہ کی منتقلی میں اس چپراسی کا کوئی کردار نہ تھا۔ ہم نے اس مفید اطلاع پر اس کا شکریہ اد کرتے ہوئے ا سے اپنا چیک تھما دیا۔جس طرح کلرک حضرات کسی کا کام وقت پر کرنا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں اسی طرح اب یہ عادت آہستہ آہستہ درجہء چہارم کے ملازموں میں بھی آتی جا رہی ہے ۔چپراسی نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ جناب مجھے وقت ملا تو کیش کروا لاؤ ں گا مگر وعدہ نہیں کرتا۔اس کے غیر تسلی بخش جواب پر ہم نے ایک نظر چپراسی کے حلیے پر ڈالی ۔بغیر استری کے کپڑوں اور نیم پالش شدہ جوتے پہنے ،پیلے دانت منہ سے باہر نکالے وہ ہماری بے بسی پر مسکرا رہا تھا ۔ہم نے بڑوں سے سنا ہے کہ مصیبت کے وقت گدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے ۔ہم نے جیب سے دس روپے کا نوٹ نکالا اور اس کی مٹھی میں دیتے ہوئے کہا کہ اس کی چائے پی لینا اب جلدی سے میرا کام کر آؤ۔اس نے چہرے پر ابلیسانہ مسکراہٹ سجاتے ہوئے دس روپے کا نوٹ جیب میں ٹھونسا اور بینک کا کہہ کر روانہ ہو گیا ۔
ہم آنکھیں بند کیے تنخواہ کو اخراجات پر تقسم کرنے میں مصروف تھے کہ چپراسی نے باآواز بلند ہمیں یہ کہہ کر جگا دیا کہ جناب آپ کا چیک کیش نہیں ہو سکا۔کیشئر نے کہا ہے کہ آپ کے دستخط درست نہیں ہیں ۔ہم نے حیرانی او ر پریشانی سے چپراسی سے پوچھا کہ تم ہر ماہ تنخواہ بینک سے لاتے ہو مگر اس دفعہ دستخط کا مسئلہ کیوں پیش آیا۔اس نے بتایا کہ نئے کیشئر صاحب نے آج ہی ڈیوٹی سنبھالی ہے ۔ہم نے مایوسی سے چیک اس کے ہاتھ لیا اور اسے دوبارہ جیب میں ڈالا،ویسے گذشتہ چند دن سے وہ چیک ہماری جیب کے درجہء حرارت سے سمجھوتہ کر چکا تھا۔وہ ادارہ جس میں ہم ملازم ہیں ایک پرائیویٹ ادارہ ہے۔ادارے کے سربراہ سے بینک جانے کی اجازت مانگنا بے سود تھاکیونکہ ابھی چند دن قبل ایک جنازے میں شرکت کی مختصر چھٹی مانگنے پر انہوں نے صاف انکار کر دیا تھا لہذا ان سے کسی قسم کی امید وابستہ کرنا سراسر حماقت تھی۔اس وقت ہمیں سرکاری ملازمت کی اہمیت کا احساس ہوا کہ کاش ہم بھی کسی سرکاری ادارے میں ملازم ہوتے تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتاکیونکہ سرکاری اداروں کے ملازمین شاذ و نادر ہی اپنی ڈیوٹی ادا کرتے نظر آتے ہیں ان ملازمین کی صرف نوکری سرکاری محکمہ میں ہوتی ہے جبکہ ان کے بچے شہر کے بہترین پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں کیونکہ ان افراد کی اوپر کی آمدنی (جسے وہ اللہ کا کرم تصور کرتے ہیں)خاصی ہوتی ہے اور اسے ہضم کر نے کے لئے مضبوط دل گردے درکار ہوتے ہیں لہذا ان لوگوں کے ڈاکٹرز کی طرف اکثر چکر لگتے رہتے ہیں جہاں وہ پرائیویٹ طورپر چیک اپ کرواتے ہیں او ر بظاہر مسیحا نظر آنے والے ڈاکٹرز کی تجوری کو اپنی سو فیصد’’ حلال کمائی‘‘ سے بھرتے رہتے ہیں ۔
دفتر سے واپسی پر ہم ناک کی سیدھ میں بینک کی طرف روانہ ہوئے ۔بینک کے گیٹ پر سکیورٹی گارڈ ہمارے ہاتھ میں شاپنگ بیگ دیکھتے ہی ہمیں خود کش بمبار سمجھ کر تیر کی طرح ہماری طر ف لپکا ۔ہم نے بلا تاخیر بیگ اس کی طرف بڑھا دیا جسے چیک کرکے اس نے ہمیں واپس کر دیا۔ کیشئر صاحب تک پہنچنا جوئے شیر لانا ثابت ہوا کیونکہ انتظار کرنے والو ں کی لائن میں انتیس افراد پہلے سے موجود تھے جبکہ تیسوا ں امیدوار میں تھا ۔ابھی لائن میں ٹھہرے مجھے چند منٹس ہی گزرے ہوں گے کہ انکشاف ہوا کہ تمام افراد کے چیک صرف دستخط درست نہ ہونے کی وجہ سے کیش نہیں ہو پائے۔میں نے ماتھے پرنمودار ہونے والے پسینے کے قطرے صاف کرتے ہوئے اس عظیم و اعلی رتبہ کیشئر کی جانب دیکھا جو بڑی بے نیازی سے ایل سی ڈی پر کیش وصول کرنے والوں کو ان کے دستخط دکھاتے ہوئے یہ بتا رہا تھا کہ کیش کا معاملہ ہے ،غلطی کی صورت میں پچیس لاکھ روپے جرمانہ ہے لہذا احتیاط ضروری ہے ۔کیشئر صاحب بہت تسلی سے تمام افراد کو وقت دے رہے تھے ۔تقریبا دو گھنٹوں کے جان لیوا انتظار کے بعد جب ہمیں اس اعلی مرتبہ کیشئر صاحب کے روبرو پیش ہونے کا موقع ملا تو جناب نے شان بے نیازی سے فرمایا کہ جناب بینک کا ٹائم ختم ہو چکا ہے پلیز کل تشریف لائیے گا ۔ہم گذشتہ دو گھنٹوں میں موصوف کیشئر صاحب پر لگ بھگ ایک ہزار مرتبہ قربان ہو چکے تھے۔ہم نے انتہائی عاجزی سے ان سے درخواست کی کہ جناب مجھے اندازہ ہے کہ آپ صبح سے اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے تھک چکے ہیں اگر ممکن ہو تو مہربانی کر دیں ۔کیشئر صاحب نے میرے چہرے پر مشکوک نظروں سے دیکھا اور چیک میرے ہاتھ سے لے لیا ۔میں اس انتظار میں رہا کہ ابھی مجھے میرے دستخط کمپیوٹر ایل سی ڈی پر دکھائے جائیں گے اور مجھے اپنے چیک پر دوبارہ دستخط کرنے پڑیں گے مگر ایسا کچھ نہ ہوا ۔رقم مجھے دی جا چکی تھی ۔میں نے رقم جیب میں منتقل کی اور گھر طرف چلا پڑا ۔ میری نظر میں کیشئر صاحب کا رتبہ اور مقام جو پہلے تھا اس میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے ۔آپ کو بھی معاشرے میں ایسے کردار نظر آئیں تو آپ پر واجب ہے کہ انہیں عزت و احترام سے نوازیں ۔